آزادی وطن اور علماء اسلام
کا کلیدی رول
یہ ایک
واقعہ اور تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان کو سامراج کی غلامی
سے نجات دلانے اور وطن عزیز سے انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنے کے لئے
قوم مسلم بالخصوص علمائے دین نے عظیم قربانیاں دی ہیں
بالخصوص ۱۸۵۷/ کی تحریک آزادی کے
برپاکرنے میں علماء اسلام نے کلیدی رول ادا کیا تھا ؛
بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس تحریک کے جسم میں سراج الہند
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا فتویٰ جہاد خون بن کر
دوڑرہا تھا اور انہی کے ساختہ پرداختہ سیداحمد شہیدرائے بریلوی،
مولانا اسماعیل شہید دہلوی، اور مولانا عبدالحئی بڈھانوی
وغیرہ مجاہدین نے جذبہٴ جہاد سے پورے ملک کو سرشار کردیا
تھا اور یہی جذبہ ۱۸۵۷/ کی تحریک
آزادی میں کارفرما تھا، تحریک کی ناکامی اور وطن عزیز
پر برطانوی سامراج کے قبضہ کے بعد بھی یہ جذبہ زندہ رہا ۱۸۶۵/
اور ۱۸۷۱/ کا عظیم آباد سازش کیس ، ۱۸۶۳/
کا انبالہ سازش کیس، ۱۸۷۲/ میں مالدہ اور راج
محل کا مقدمہٴ بغاوت اور شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی
کی ریشمی رومال تحریک وغیرہ اس کے معتبر ثبوت ہیں۔
غرضیکہ تاریخ آزادی کا ہر باب مسلمانوں کی ایثار و
قربانی اور سرفروشانہ جدوجہد کی خوشبو سے رچا بسا ہوا ہے۔
ملک و وطن کی
آزادی کے لئے قوم مسلم کی یہ والہانہ جاں سپاری اگرچہ ان
کا ایک مذہبی فریضہ تھی لیکن اسی کے ساتھ
اپنے وطن کو غیروں کی تہذیبی، تعلیمی، معاشی
اور سیاسی غلامی سے نجات دلانے کا عظیم مقصد بھی ان
کے پیش نظر تھا، انھیں یہ بھی یقین تھا کہ
آزادی کے ثمرات اور مفید نتائج سے وہ بھی دیگر برادران
وطن کی طرح یکساں مستفید ہوں گے اور زندگی کے ہر شعبہ میں
انصاف اور مساویانہ حقوق سے بہرہ ور ہوں گے۔
چنانچہ آزادی
کے میسر آجانے کے بعد ۱۹۵۰ / میں مجاہدین
آزادی کی تمناؤں کے عین مطابق وسیع تر جمہوری دستور
کا نفاذ عمل میں آیا جو بلاشبہ ایک سیکولر عوامی
جمہوریہ کا آئینہ دار تھا مگر صدحیف کہ خود اس دستور کی
پاسدار اور محافظ قومی حکومتوں نے حوصلہ کی پستی اور فکر ونظر کی
تنگی کی بناء پر اس دستور کو بروئے کار آنے نہیں دیا اور
بابائے ملک مہاتما گاندھی کے اس تاریخی اعلان کو کہ ”میں
مسلمانوں کو ہندوستان کی سڑکوں پر گھسٹنے نہیں دوں گا انھیں
وقار کے ساتھ سراوپر کرکے چلنا ہوگا“ خود ان کے نام کے پجاریوں نے تعصب و
فرقہ واریت کی بھٹی میں بھسم کردیا ۔
اس حقیقت
سے کون باحیاء و بامروّت آنکھیں چراسکتا ہے کہ ملک کی آزادی
کے بعد جتنے بڑے فسادات اور خونی واقعات رونما ہوئے ہیں ان کا تعلق
مسلمانوں سے ضرور رہا ہے۔ جس قوم نے ملک عزیز کے لئے عظیم قربانیاں
دیں، آزادیٴ وطن کی خاطر قید وسلاسل کی بے
پناہ سختیاں برداشت کیں افسوس کہ آج اسی کو قومی زندگی
کے تقریباً ہر شعبے میں محرومی اور امتیازی سلوک کا
سامنا کرنا پڑرہا ہے، اقتصادی، معاشی اور خاص طور پر صنعتی سطح
پر وہ اپنی مدد آپ کرنے کے اصول پر چلتے ہوئے آگے بڑھنے کی تگ و دو میں
مصروف ہیں مگر قدم قدم پر انہیں روکاوٹوں اوراڑچنوں کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔ صنعتی لائسنسوں، قرضوں اورامداد کے معاملہ میں انھیں
دانستہ نظر انداز کردیا جاتاہے۔ سرکاری ونیم سرکاری
ملازمتوں کے دروازے ان کے لئے تقریباً بند کردئیے گئے ہیں، تعلیمی
مواقع سے انہیں ایک حد تک جبری طور پر دور کردیاگیا
ہے غرضیکہ زندگی کے ہر میدان میں ان کے ساتھ ایسی
غیریت اور جانبداری برتی جاتی ہے گویا مسلمان
اس ملک میں کوئی اجنبی قوم ہے جو اچانک زمین سے نکل آئی
ہے اور ادھر کچھ دنوں سے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے نام سے ایک نیا
حربہ بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ اب جہاں کہیں بھی
بم دھماکہ اور خودکش حملہ ہوتا ہے بڑی آسانی سے بغیر کسی
ثبوت و شہادت کے اسے مسلمانوں کے سرتھوپ دیا جاتا ہے، شاید ہماری
وزارت داخلہ، اور انتظامی سرکاری مشینری نے یہ اصول
طے کرلیا ہے کہ بم دھماکے الفا، بوڈو، نکسیلوں یا کسی بھی
فسطائی تنظیموں کی جانب سے ہی کیوں نہ ہوں نیز
یہ دھماکے چاہے مندر میں ہوں یا مسجد میں آنکھ بند کرکے
مسلم نوجوانوں خاص طور پر تعلیم یافتہ اور ہنرمند جوانوں پر عائد کردیا
جائے۔
تقریباً ایک
سال پہلے ہمارے وزیراعظم منموہن سنگھ نے پارلیمنٹ انکسی میں
منعقد ہونے والے سیمینار بعنوان ”دہشت گردی، اسباب و تدارک“ میں
واضح لفظوں میں فرمایا تھا ”اگر کوئی دہشت گرد کہہ کر مسلمانوں
کو بھڑکانا چاہتا ہے تو یہ محض بھڑکانے کی سازش ہے اس سازش کو ناکام
بنانے کیلئے ہمیں مشترکہ طور پر لڑنا ہوگا“ اس میں کوئی
شبہ نہیں کہ وزیر اعظم صاحب نے اپنے اس موقف اور عندیہ کے اظہار
میں صاف گوئی سے کام لیا تھا، جس سے یہ توقع ہوگئی
تھی کہ اس معاملہ میں اب سرکاری مشینری کی پالیسی
میں تبدیلی آئے گی، مگر یہ بیان دیگر
سرکاروں کے بیانات کی طرح بس بیان کی حد تک ہی رہا
اور حالات جوں کے توں رہے بلکہ پہلے سے بھی خراب ہوگئے۔
یہ ہے دنیا
کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایک سب سے بڑی اقلیت
کے ساتھ قومی سرکار اوراس کے اہل کاروں کا غیرجمہوری رویہ
اور قانون و انصاف کے محافظوں کا غیرقانونی وغیردستوری
طرز عمل جس نے ہندوستان کی قومی سرکاروں پر سوالیہ نشان لگادیا
ہے۔
اس موقعہ پر ہم
اپنے اس تاثر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس انتہائی صبر
آزما ماحول میں بھی مسلمان پوری پامردی، حوصلہ مندی
اور عزم و یقین کی قوت کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔
اور بڑی سے بڑی آزمائشوں سے گزرتے رہنے کے باوجود بھی اس کے فکر
وعمل کی توانائی قائم و دائم ہے حالات کی تلخ کامیوں کا
اسے شکوہ ضرور ہے لیکن ان سے وہ ہراساں نہیں ہے۔ مسائل کے ہجوم
کا اسے احساس ہے مگر اس احساس سے اس کے قوائے عمل مضمحل نہیں ہوئے ہیں۔
یہ ایک ایسی خوش آیند صورت حال ہے جس کے پیش
نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک زندہ قوم ہے، جو انشاء اللہ
زندہ رہے گی اور صفحہٴ گیتی پر اپنی تاریخ
رقم کرتی رہے گی۔ ”وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز“
میں چلتا رہا سر اٹھاتے ہوئے
میرا قتل ہر روز ہوتا رہا
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد: 91 ، شعبان-رمضان 1428 ہجری مطابق ستمبر2007ء